Orhan

Add To collaction

لکھ پھر سے تو نصیب میرا

لکھ پھر سے تو نصیب میرا
از سیدہ
قسط نمبر2

نمل پچھلے دو گھنٹے سے اپنے والدین کا انتظار کر رہی تھی لیکن وہ لوگ اب تک آے نہیں تھے۔۔۔۔۔
گھر کے قریب ہی تو ہے بازار لیکن آے کیوں نہیں ہے وہ پریشانی میں ادھر ادھر ٹہیل رہی تھی تبھی اچانک اسکے فون پہ کسی اجنبی نمبر سے کال آنے لگی کال پہ کچھ ایسا کہا گیا تھا کے ہاتھ میں موجود موبائل زمین پا گرا۔۔۔۔۔۔۔
کچھ ہی دیر بعد اسکے گھر میں دو جنازے رکھے ہوے تھے  لوگوں نے بتایا تھا کے کسی تیز رفتار گاڑی نے دونوں کو کوچل دیا تھا  اسکی تائی اسکے پاس تھیں گھر میں موحلے کے لوگ بھی موجود تھے 
وہ خاموشی سی بیٹھی کھاٹ کے پاس اپنے ماں باپ کو دیکھ رہی تھی اسے اپنے بابا کے کہے الفاظ یاد آرہے تھے شاید اس ہی لئے وہ نمل کو وہ ساری باتیں کہہ کر گئے تھے 
بیٹا جنازہ اٹھانا ہے۔۔۔۔۔تایا نے آکر شفقت سے کہا اور اپنی بیوی کو آنکھوں کے اشارے سے اسے ہٹانے کو کہا 
کچھ لوگ جیسے ہی  آگئے  بڑھے جنازہ اٹھانے وہ جلدی آگے بڑھی۔۔۔۔۔۔کہاں لے کر جا رہیں  تایا آپ امی بابا کو۔۔۔۔۔۔نہیں میں انہیں نہیں جانے دونگی۔۔۔۔۔وہ کھاٹ پکڑ کر بیٹھ گئی تھی 
بیٹا جس کی امانت تھے اسے واپس دینے جارہے ہیں۔۔۔۔۔۔
نہیں تایا جان میں کیسے رہوں گی امی بابا کے بنا نہ لے کر جائے انھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگ جنازہ اٹھا چکے تھے۔۔۔۔۔۔میں کہہ رہی ہوں نہ نہیں لے کر جائے وہ زندہ مجھے کہہ کر گئے تھے وہ نہیں لے جائیں میں مر جاؤنگی وہ پاگلوں کی طرح چیخ رہی تھی اسکی تائی اور کچھ عورتوں نے اسے پکڑا ہوا تھا 
میرے بابا میری امی کو نہیں لے کر جو وہ کیسے میرے بنا رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔آپ بولیں نہ نہیں لے کر جائے تایا کو وہ اب اپنی تائی سے کہہ رہی تھی 
میری جان نہیں بابا کیا کہہ کر گئے تھے یاد کرو رونا نہیں ہے صبر کرو۔۔۔۔۔۔ان سے بھی نمل کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
________________
وہ اس وقت کلب میں بیٹھا۔۔۔۔تھوڑے فصلہ پہ آدھے ادھورا کپڑوں میں ناچتی لڑکیوں کو دیکھ کر اپنی نظر کی حواس کو بوجھا رہا تھا اور ساتھ ساتھ گلاس میں رکھی حرام مشروب بھی ہلک میں اتر رہا تھا 
ویسے صفوان تیری تتلی کہاں ہے اسکے  ساتھ ہی بیٹھے دوست ںنے کہا 
ارے اپنی تیلی کا ہی انتظار کر رہا ہوں پتا نہیں کب واپس آے گی وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
تو پھر ہمارا ہیرو اپنی پیاس کیسے بوجھائے گا اسکے دوست نے کمینی مسکراہٹ کے ساتھ کہا 
فکر نہیں یار تیرے ہیرو کے آگئے پیچھے اور بہت سی تتلیوں پھرتی ہیں تیرے بھائی نے کر لیا ہے انتظام۔۔۔۔۔۔۔صفوان نے سامنے سے آتی آدھے سے بھی کم کپڑوں میں لڑکی کی طرف نظروں سے اشارہ کرتے ہوے کہا 
ہیلو بوئے۔۔۔!
ہیلو بےبی۔۔۔۔۔۔صفوان کھڑا ہوگیا۔۔۔۔۔جلدی آگئی تم تو ۔۔۔۔۔۔
لگتا ہے ہمارے ہیرو کا انتظار نہیں ہوا۔۔۔صفوان کے دوست نے اپنی بے حیائی کا ثبوت دیا 
اب تمہارا ہیرو ہے ہی اتنا ہندسم۔۔۔۔اسنے صفوان کے گلے میں باہیں ڈالتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔۔۔۔
چلو بےبی۔۔۔۔۔اب ویٹ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔صفوان نے آنکھ مرتے ہوۓ کہا اور اسے لے کر اپنے کردار کا جنازہ نکلنے چلا گیا 
____________
آپی اس لڑکی کو دیکھیں ذرا کیسا لباس پہنا ہوا ہے اس نے۔۔۔۔۔مدرسے سے واپس پہ اپنی کچھ سٹوڈنٹ کے ساتھ جا رہی تھی تبھی ایک سٹوڈنٹ نے روڈ کے دوسرے جانب کھڑی لڑکی کے جانب دیکھ کر کہا 
بہت غلط بات ہے کسی کا ظاہر دیکھ کر اسکے باطن کا اندازہ نہیں لگاتے۔۔۔۔۔اسنے اسے ٹوکتے ہوۓ کہا 
لیکن آپی وہ کہیں سے مسّلم نہیں لگ رہی۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹا ہم کسی کا لباس دیکھ کر اسکے مسّلم اور غیر مسّلم ہونے کا فتویٰ نہیں دے سکتے۔۔۔۔۔۔کیا پتا اسکے اندر ایمان تم سے زیادہ ہو مجھے سے زیادہ ہو کیا پتا وہ تم سے اور مجھ سے زیادہ اَللّهُ کے قریب ہو۔۔۔۔۔۔۔وہ چلتے چلتے اپنے سٹوڈنٹ کو سمجھا بھی رہی تھی 
اور جو تم نے کہا نہ یہ بھی تکبر میں شامل ہوتا ہے تمھیں ایک واقع بتاتی ہوں ایک بار حضرت عیسی علیہ السلام جا رہے تھے انکے پیچھے پیچھے انکے ایک صحابی بھی تھے ایک پہاڑ پہ ایک چور بیٹھا تھا اس نے جب آپکا نورانی چہرہ دیکھا تو دل میں توبہ کی آرزو ہوئی تو وہ بھی پیچھے چل دیا جب آپ کے صحابی نے اس چور کو پیچھے آتے دیکھا تو انہوں نے سر ہممم  کیا جیسے اکثر منہ ٹیڑا کر کے کرتے ہیں۔۔۔۔۔تبھی اچانک جبرائیل حضرت  عیسی کے پاس آے اور کہا۔۔۔۔۔کے اَللّه تعالیٰ کہہ  رہے ہیں آپ کے پیچھے اسکے دو بندے چل رہی ہیں آپ ایک سے کہہ دیں کے اَللّهُ نے تیرے پچھلے سارے گناہ معاف کیے اور آج سے تیری نئی زندگی شروع اور دوسرے سے کہہ دیں کے اَللّهُ نے تیری پچھلی تمام نیکی ضائع کردی۔۔۔۔۔۔آپ دیکھوں جب اَللّهُ نے  صحابی ہو کر انکی ایک ہمم پر انکی تمام نیکی ختم کردی تو میں اور تم کس کھیت کی مولی ہیں۔۔۔۔۔اس طرح اگر کسی نے ہنڈفری لگائی ہو تو ضروری نہیں ہے کے وہ گانا ہی سن رہا ہو کیا پتا وہ تلاوت سن رہا ہو اگر کوئی موبائل میں سر دیے بیٹھا ہو تو ضروری نہیں کے وہ کوئی غلط چیز دیکھ رہا ہو ہو سکتا ہے وہ موبائل میں قرآن پڑھ رہا ہو۔۔۔۔۔۔۔ اسکی باتیں ساتھ چلتی لڑکیاں خاموشی سی سن رہی تھیں۔۔۔۔۔۔
ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ آپی میں توبہ کرتی ہوں اَللّهُ سے اپنی بات پہ۔۔۔.  
بہت اچھی بات ہے کے تمہیں احساس ہوا۔۔اور ایک اچھے  مسلمان کی پہچان ہے کے جب اسے اپنے گناہ اور غلطی کا احساس ہوتا ہے تو فوراً توبہ کر لیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
__________________
الہی ایک میٹنگ میں تھا آج اسے ایک بڑا کونٹریکٹ ملا تھا سارے آکر اسے ہاتھ ملا کر مبارک دے رہی تھے۔۔۔۔تبھی ایک لیڈیز نے مبارک دینے کے لئے ہاتھ آگئے بڑھایا
معذرت مس الیس میں آپ سے ہاتھ نہیں ملا سکتا۔۔۔۔۔
مگر کیوں  کیا میں کرسچن ہوں اسلئے ؟
 نہیں نہیں ایسی بات نہیں ہے دراصل یہ ہاتھ اور میرا پورا وجود میری بیوی کی امانت ہے میں اس میں خیانت نہیں کر سکتا الہی کے جواب پہ مس الیس کے چہرے پہ خوبصورت سی مسکراہٹ آگئی۔۔۔۔۔
مسٹر الہٰی اس بزنس فلیڈ میں مجھے آٹھ سال ہوگے ہیں اور ان آٹھ سالوں میں بہت سے لوگوں سے واسطہ پڑا لیکن آپ جیسا انسان پھیلی بار دیکھا ہے۔۔۔۔۔۔
آپکا بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔ الہٰی نے نظریں جھکاکر کہا۔۔۔۔۔۔۔
سر میں نے یہ بات سنی تھی  کے اپنے عمل سے مسلمان ہونے کا ثبوت دو نہ کے باتوں سے اور آج دیکھ بھی لیا۔۔۔۔۔۔۔اشفاق نے فخریا انداز میں کہا 
اشفاق آج ہم مسلمانوں کی حرکتوں کی وجہ سے غیر مسّلم اسلام کو ایک اچھا مذہب نہیں سمجھتے الہٰی نے افسوس سے کہا 
بلکول ٹھیک کہا سر اپنے 
چلو لنچ کا وقت ہوگیا ہے الہٰی نے اپنا سامان اٹھاتے ہوۓ کہا 
_____________
وہ سب لوگوں کے ساتھ خاموش بیٹھی ہوئی تھی اسکا  دنیا میں کوئی نہیں تھا۔۔۔۔۔فیصلہ ہو رہا تھا کے وہ کس کے گھر جائے گی 
شایان بھائی میں تو نہیں رکھ سکتی نمل کو آپ کو تو پتا میرے گھر میں بھی دو جوان بیٹے ہیں۔۔۔۔۔۔پھوپھو نے صاف انکار کرتے ہوۓ کہا 
اور میرے گھر کے حالت سے تو بے خبر نہیں ہے میں خود دو وقت کا کھا کر مشکلوں سے گزارا کرتا ہوں یہ آواز اسکے اپنے مامو کی تھی 
ویسے آپ ہمیں کہہ رہیں ہیں نمل کو رکھنے کا آپ خود رکھلیں ماشاءاللّه  آپ تو ہر حساب  سے ہم سے اچھے ہیں مامی نے طنزیہ انداز میں کہا  
سب کی باتیں سن کر اسکی آنکھوں سے آنسوں جا رہی ہوگے ساتھ بیٹھی حمنہ نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے حوصلہ دیا 
سکینہ نے اپنے شوہر کو دیکھا وہ انکا چہرہ دیکھ کر سمجھ گئیں تھی کے وہ کیوں نہیں رکھ سکھتے نمل کو وہ بھی جانتی تھی وجہ صفوان تھا۔۔۔۔۔۔
ٹھیک کہا آپ نے میری بچی بے یارو مددگار نہیں ہے میں رکھوں گی اسے سکینہ کے آواز پہ سب انکی طرف مخاطب ہوۓ 
نمل نے نظریں اٹھا کر اپنی تائی کو دیکھا۔۔۔۔۔۔آج سے میری حمنہ اور نمل میں کوئی فرق نہیں انہوں نے نمل کے ماتھے پہ بوسہ دیتے ہوۓ کہا 
ٹھیک کہا نمل ہمارے گھر جائے گی شایان صاحب نے بیوی کو پرعظم دیکھ کر کہا 
نمل بیڈ پہ بیٹھی اپنے کپڑے پیک کر رہی تھی تبھی شایان صاحب اور سکینہ اندر آے 
ہوگیا سامان پیک سکینہ نے پیار سے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا 
جی۔۔۔۔۔۔اس نے ہلکی آواز میں کہا 
تائی مجھے آج اندازہ ہوا باپ کا سایہ کیوں  اتنا ضروری ہوتا ہے جب تک ماں باپ زندہ ہوتے ہیں ہر رشتہ اپنا ہوتا ہے اور ماں باپ کے جانے کے بعد خون کے رشتے بھی بے گانے ہو جاتے ہیں وہ کہہ زبان سے رہی تھے لیکن درد آنکھوں نے بہہ رہا تھا 
نہیں میری بچی ابھی تمہارے والدین زندہ ہیں اور آج سے تم ہماری بیٹی اور ہم تمہارے ماں باپ ہیں۔ شایان صاحب نے آگئے بڑھ کر نمل کو گلے لگیا 

   1
0 Comments